اردو کا تاریخی پس منظر

اردو، جنوبی ایشیا کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔ بر صغیر ہند کی آزادی کے بعد سے اس زبان کی مقبولیب میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہ ہندوستان کی اٹھارہ (18) قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ حالانکہ اس زبان پر عربی وفارسی کے اثرات ہیں لیکن عربی وفارسی کے برعکس یہ ہندی کی طرح ایک ہند آریائی زبان ہے جو برصغیر ہند میں پید اہوئی اور یہیں اس کی ترقی ہوئی ۔ اردو اور ہندی دونوں جدید ہند آریائی زبانیں ہیں اور دونوں کی اساس یکساں ہیں، صوتی اور قواعدی سطح پر دونوں زبانیں اتنی قریب ہیں کہ ایک زبان معلوم ہونے لگتی ہیں لیکن لغوی سطح پر دونوں نے مختلف ذرائع سے اتنا زیادہ مستعار لیا ہے (اردو نے عربی اور فارسی سے، ہندی نے سنسکرت سے) کہ رواج اور طریقۂ استعمال کی سطح پر حقیقتاً دونوں کی شناخت علاحدہ اور خود مختار زبانوں کے طور پر ہوتی ہے۔ یہ فرق رسم الخط کی سطح پر کافی نمایاں ہے۔ ہندی کا رسم الخط دیونا گری ہے، جب کہ اردو کا رسم الخط فارسی وعربی ہے جس میں ہند آریائی زبان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مقامی طورپر ترمیم واضافہ کیا گیا ہے۔ ایک عام اندازے کے مطابق اردو اور ہندی کے بولنے والوں کو ملا کر دیکھیں تو یہ دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولے جانے والی لسانی آبادی ہے۔

اردو، پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ سرکاری اسکولوں، ضلع انتظامیہ اور عوامی ذرائع ابلاغ میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں 1981 کی مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اردو بولنے والے کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ خاص کر کراچی اور پنجاب میں اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقریباً 4 کروڑ40 لاکھ (ہندوستان کی مردم شماری، 1991) ہے۔ سب سے زیادہ اردو بولنے والے اُتر پردیش میں ہیں۔ اس کے بعد بہار، آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور کرناٹک کا نمبر آتا ہے۔ مشترکہ طورپر ان ریاستوں میں پورے ملک میں اردو بولنے والوں کی 85، فیصدی آبادی رہتی ہے۔ شہر ِدہلی ابھی بھی اردو ادب او ر طباعت کا بڑا مرکز ہے۔ ہندوستان اور پاکستان سے متصل ملکوں مثلاً افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں بھی اردو بولی جاتی ہے۔ برصغیر ہندوپاک سے باہر خاص طور سے خلیجی ممالک، مشرق وسطی، مغربی یوروپ، اسکینڈنیوائی ممالک (ڈنمارک، ناروے، سوئڈین)، امریکہ اور کناڈا میں اردو، جنوبی ایشیا کے مہجری مسلمانوں کی تہذیبی زبان اور لنگوا فرینکا بن چکی ہے

تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو اردو کی ابتدا بارہویں صدی کے بعد مسلمانوں کی آمد سے ہوتی ہے۔ یہ زبان شمال مغربی ہندوستان کی علاقائی اپ بھرنشوں سے رابطے کی زبان کے طورپر اُبھری۔ اس کے پہلے بڑے عوامی شاعر عظیم فارسی داں امیر خسرو (1325-1253) ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس نئی زبان میں دوہے، پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں کہیں۔ اس وقت اس زبان کو ہندوی کہا جاتا تھا۔ عہد وسطی میں اس مخلوط زبان کو مختلف ناموں سے جانا گیا۔ مثلاً ہندوی، زبان ہند، ہندی، زبانِ دہلی، ریختہ، گجری، دکنی، زبانِ اردوئے معلّٰی، زبان اردو، اردو۔ اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ گیارہویں صدی کے اواخر میں ‘ہندوستانی’ نام مروج تھا جو بعد میں ارد کا مترادف بن گیا۔ لغوی اعتبار سے اردو (اصل میں ترکی زبان کا لفظ ہے) کے معنی چھاؤنی یا شاہی پڑاؤ کے ہیں۔ یہ لفظ دہلی شہر کے لیے بھی مستعمل تھا جو صدیوں مغلوں کی راجدھانی رہی۔ ان سب باتوں کے باوجود اردو کے بڑے قلم کار انیسویں صدی کے آغاز تک اپنی زبان اوربولی کو ہندی یا ہندوی کہتے ہیں۔ ؎:

نہ جانے لوگ کہتے ہیں کس کو سرورِ قلب
آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زبان کے بیچ

میر تقی میرؔ(وفات:1810)

مصحفیؔ فارسی کو طاق پہ رکھ
اب ہے اشعارِ ہندوی کا رواج

مصحفیؔ (وفات:1824)

اردو اور ہندی میں تفریق نوآبادیاتی اثرات کے تحت رونما ہوئی جب سیاسی جدید کاری کے عمل کے تحت تہذیبی شعور میں اضافہ ہونے لگا۔ درحقیقت اس کی شروعات فورٹ ولیم کالج (قیام 1800)، کلکتہ میں جان گلکرسٹ (1841-1789) کی سر براہی میں ہوگئی تھی۔ اس بات کے واضح اور وافر ثبوت ملتے ہیں کہ برطانوی حکمرانوں نے پہلے تو ‘ہندی’ کی اقسام کے سوال کو تہذیبی ورثے اور سماجی درجات سے منسلک کردیا اور بعد میں اسے مذہب اور سیاسی رسہ کسی سے جوڑ دیا۔ لہٰذا، یہ فورٹ ولیم کالج ہی تھا جہاں ادبی نثر نگاری کے دو منفرد رجحانات سامنے آئے۔ ایک طرف تو اردو نثر کے طورپر میرامن کی ‘‘باغ وبہار ’’ (1802-1800) اور حیدر بخش حیدری کی ‘‘آرائش محفل’’ (1804-1802) سامنے آئی تو دوسری جانب للّو لال کا ‘‘پریم ساگر’’ اور سادل مشرا کا ‘‘ناسکیٹو پکھیان’’ ہندی نثر کے نمونے ٹھہرے۔ بعد میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ مہاتما گاندھی نے زبان کے مسئلے کی فرقہ واریت اور انگروزوں کے ذریعے اس سیاسی رنگ دیے جانے کو محسوس کیا۔لہٰذا انھوں نے دونوں رسم الخط میں لکھی جانے والی‘‘ہندوستانی’’ کےمشترکہ تصور کو ملک کی قومی زبان بنائے جانے کی حمایت کی۔ یہاں پر اس امر کا بیان دلچسپی کا حامل ہوگا کہ مہاتما گاندھی کی تجویز کہ ہندوستانی، مشترکہ تہذیب کی زبان ہے، سےکا فی پہلے راجا شیوپرساد نے 1857 میں قواعد کی اپنی کتاب میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ ہندی اور اردو میں ملکی سطح پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ‘‘اس نامعقولیت کی شروعات ڈاکٹر گلکرسٹ کے عہد کے مولویوں اور پنڈتوں سے ہوئی۔ انھیں بالائی ہندوستان کی مشترکہ بولی کے قواعد بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن انھوں نے دو قواعد لکھ ڈالے۔۔۔۔ اس کے مضر اثرات یہ رونما ہوئے کہ ملکی زبان کے ایک قواعد کے بجائےــــــ قواعد کی دو مختلف اور متضاد درسی کتابیں تیار ہوگئیں، ایک مسلمان اور کایستھ لڑکوں کے لیے اور دوسری برہمن اور بنیوں کے لیے’’ (سریواستو، ص:30) ۔ تفریق کی بیج بودی گئی تھی، تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے لسانی تفریق کی جڑیں مضبوط ہونے لگیں۔ تقسیم کے بعد ہندوستانی کے تصور کی کوئی سرکاری پذیرائی نہیں ہوئی لیکن یہ مشترکہ بنیادی زبان عوام الناس کے دلوں پر راج کرتی رہی۔ حقیقت میں یہ زبان عوامی تہذیب کی سطح پر ترسیل کا ذریعہ ہے اور فلموں اور تمام طرح کے تفریحی پروگرام میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔

اردو میں قواعد اور لغت سازی کی روایت تقریباً تین سو سال پرانی ہے۔ ابتدا میں یوروپی مستشرقین نے اس پر توجہ دی جس کا سلسلہ 17 ویں صدی میں ولندیزی اسکالر کیٹیار (Keteiaar) شروع ہو کر شولز (;Schultze;1744) ، فرگوسن(Ferguson;1773)، گلکرائسٹ (;Gilchirst;1800)، شیکسپیر (Shakespeare,1817)، فوربس (Forbes;1848)، فیلن (Fallon;1879)، پلاٹس (Platts;1884)، وغیرہ سے ہوتا ہوا بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں گریرسن (Grierson) تک جاری رہا۔ پلاٹس کا کام (لغت) کلاسک کادرجہ حاصل کرچکا ہے اور اسے متعدد بار شائع کیا جاچکا ہے۔ گریرسن کے ‘‘لنگوئسٹک سروے آف انڈیا’’ کا کوئی متبادل نہیں ، لیکن دوسروں کے کام کی حیثیت تاریخی ہوکر رہ گئی ہے۔ مقامی سطح پر دیکھیں تو سید احمد دہلوی کی فرہنگِ آصفیہ (1908-1895)، نور الحسن نیّر کا کوروی کی نوراللغات (31-1924)، فیروز الدین کی جامع اللغات (1934) اور بابائے اردو عبد الحق کی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری (1937) اہم ہیں۔
بعد میں جدید لسانیات کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں اور اردو کو قومی زبان کا نیا درجہ ملنے اور جنوبی ایشیا ئی مہجری آبادی کے تہذیبی رابطے کے آلے کے

طورپر اردو میں نئی تحقیق کی ضرورت میں مسلسل اضافہ ہوتا رجارہا ہے۔ جدید اسکالر مثلاً ایم۔ اے۔ آر۔ بارکر (M.A.R. Barkar)، آر۔ ایس میک گریگر (R.S.Mc Gregor)، رالف رسل (Ralph Russel)، کرسٹو فرشیکل (Christopher Shackle)، آر۔ این۔ سریواستو (R.N. Srivastava)، اشوک کیلکر (Ashok Kelkar)، یوگین گلاس مین (Eugene Glass Man)، ڈونالڈ بیکر (Donald Bicker)، بروس پرے (Bruce Pray)، سی ۔ ایم ۔ نعیم (C.M. Naim)، تیج بھاٹیا (Tej Bhatiya)، ہیلمٹ نیسپیٹل (Helmut Nespital)، وغیرہ کے کام اہمیت کے حامل ہیں۔ روتھ لیلیٰ شمٹ (Ruth Laila Schmidt) نے گوپی چند نارنگ کے تعاون سے اردو: این ایسنشیئل گرامر (1999) شائع کی جو اردو کی پہلی جامع اور حوالہ جاتی قواعد ہے۔

اردو ادب کا آغاز دہلی سے دور دکن میں پندرہویں ، سولھویں اور سترہویں صدی میں ہوا۔ شمال کے مغل حکمران عام طور سے فارسی کی سرپرستی کرتے تھے، جنوبی ہند (گولکنڈہ (موجودہ حیدر آباد ) اور بیجاپور) میں نئی زبان (اردو) کو دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی جس کا پہلے پہل ادبی استعمال صوفیائے کرام اور عوامی شاعروں نے کیا۔اس وجہ سے اس کا نام دکنی پڑا۔ نظامی (1434-1421)کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ دکن میں شعری بیانیہ کا اولین نمونہ ہے۔ وجہی (وفات:1635) کی تصنیف سب رس ایک تمثیلی داستان ہے۔ اسے اردو میں ادبی نثر کا پہلا نمونہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ دکن کے اہم اور مشہور شعرا میں محمد قلی قطب شاہ (وفات:1626) ، غواصی ؔ(وفات:1631)، نصرتیؔ (وفات:1674)، ابن نشاطی (وفات:1655) اور ولی اورنگ آبادی (وفات:1707) وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ ولیؔ کے کلام سے متاثر ہوکر دہلی کے شعرا نے اردو میں شاعری کی شروعات کی اور اس زبان کو شاعری کے لیے اتنا ہی موزوں ماننے لگے جتنا فارسی کو مانتے تھے۔ اس نے اردو کی ترقی کے لیے راہ ہموار کردی۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی کو اردو کلاسیکی شاعری کا سنہرا دور کہا جاتا ہے جب زبان کی لطافت اور چاشنی اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت کے قادر الکلام شعرا میں میرتقی میرؔ (وفات:1810)، سوداؔ (وفات:1718) ، خواجہ میر دردؔ (وفات:1784) انشا (وفات:1817)، مصحفیؔ (وفات: 1852)، ناسخ (وفات: 1838) آتشؔ (وفات:1847)، مومنؔ وفات:1852)، ذوق (وفات: 1854) اور غالبؔ (وفات:1869) کے نام اہم ہیں۔ یہ سبھی بنیادی طور سے غزل کے شعرا ہیں۔ مثنوی نگاری پر نظر ڈالیں تو میر حسن (وفات: 1786)، دیا شنکر نسیمؔ (وفات:1844) اور نواب مرزا شوق (وفات:1871) اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔ آگرہ میں بود وباش اختیار کرنے والے نظیر اکبر آبادی کو اردو کا عظیم عوامی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مرثیے کے میدان میں لکھنؤ کے انیس (وفات:1874) اور دبیر (وفات:1875) پر آج تک کوئی سبقت نہیں لے جاسکا ۔ غالبؔ جو کہ آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کے ہم عصر تھے، اُن کو کلاسیکی شعر ا کی کڑی کا آخری اور جدید شعرا کی کڑی کا پہلا شاعر تصور کیا جاتا ہے۔

ارد میں نثر کی شروعات اٹھارویں صدی میں ہوئی۔ غالبؔ کے خطوط نے جدید نثر کو معیار عطاکیے۔ بعد میں سر سید احمد خاں (وفات:1898)، محمد حسین آزاد (وفات: 1910)، حالیؔ (وفات:1914) اور شبلی (وفات: 1914) نے نثر نگاری کے میدان میں نمایاں رول ادا کیا۔ انیسویں صدی میں مختصر داستانوں مثلاً باغ وبہار (1802) اور رجب علی بیگ سرور کی داستان ‘فسانۂ عجائب’ (1831) نے ہزاروں صفحات اور متعدد جلدوں پر مشتمل طول طویل اور ضخیم داستانوں مثلاً طلسم ہوش ربا اور داستانِ امیر حمزہ (1917-1881) کی جگہ لے لی۔ نذیر احمد (وفات: 1912)، رتن ناتھ سرشار (وفات: 1902) اور محمد ہادی رسوا (وفات: 1931) نے اردو میں ناول نگاری کی ابتدا کی۔ بیسویں صدی میں اردو ناول کو فروغ ملا۔ پریم چند (وفات: 1936) کے ناول ‘‘گودان’’ کو اردو میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ جدید کلاسیکی سرمایے میں سعادت حسن منٹو (وفات:1955) کے افسانے، قرۃ العین حیدر کا ناول ‘‘آگ کاد ریا’’ (1960) ، عبداللہ حسین کا ‘‘اُداس نسلیں’’ (1963)، راجندر سنگھ بیدی کا ‘‘ایک چادر میلی سی’’ (1962) اور انتظار حسین کا ناول ‘‘بستی’’ (1979) نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔

علامہ اقبال (وفات: 1938) کو بیسویں صدی کا سب سے عظیم شاعر ماناجاتا ہے۔ ن۔م۔ راشد (وفات: 1975) میراجی (وفات: 1949)، جوشؔ ملیح آبادی (وفات:1982)، فراق ؔ گورکھ پوری (وفات:1982)، فیض احمد فیضؔ (وفات:1984)، مخدوم محیؔ الدین، (وفات:1969) اور اختر الایمان (وفات: 1996) وغیرہ اس دور کے اہم شعرا ہیں۔ اگر مضمون نگاروں، غیر افسانوی نثر نگاروں، ادبی ناقدین اور محققین پر نظر ڈالیں تو بابائے اردو مولوی عبد الحق (وفات:1961) ابوالکلام آزاد (وفات: 1958)، پطرس بخاری (وفات: 1958) محمود شیرانی (وفات: 1946)، شیخ محمد اکرام (وفات:1973)، سید محمد عبد اللہ (وفات:1986)، مسعود حسین رضوی ادیب (وفات:1975)، عابد حسین (وفات: 1978)، کلیم الدین احمد (وفات: 1983)، احتشام حسین (وفات: 1972)، محمد حسن عسکری (وفات: 1978)، امیتاز علی خان عرشی (وفات: 1981)، قاضی عبد الودد (وفات: 1984)، مالک رام (وفات: 1993)، کنہیا لال کپور (وفات: 1980) اور رشید احمد صدیقی (وفات: 1977) وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔

کچھ اہم رضا کار تنظیمیں جو ہندوستان میں اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے کام کررہی ہیں، درجِ ذیل ہیں:

  • (ادارہ ادبیات اردو (دیوان اردو، پنجہ گٹا، حیدر آباد۔ 500082)
  • (ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (پبلک گارڈنس، حیدر آباد۔500004)
  • (ایوان غالب (ماتا سندری لین، نئی دہلی۔ 110002)
  • (انجمن ترقی اردو (ہند) (اردو گھر، دین دیال اپادھیائے مارگ، نئی دہلی۔110002)
  • (غالب اکیڈمی (نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی۔ 110013)
  • انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (دادا بھائی نوروجی روڈ، ممبئی وی۔ٹی)
  • ریاستی اکادمیاں جو ہندوستان میں اردو کے لیے کام کر رہی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
  • (آندھرا پردیش اردو اکادمی (11-4-637، اے۔ سی گارڈس، حیدر آباد، 500004)
  • (بہار اردو اکادمی (اردو بھون، اشوک راج پتھ، پٹنہ۔ 800004)
  • (دہلی اردو اکامی ((بی۔بلاک ،پہلی منزل، 5، شام ناتھ مارگ، دہلی، 110054)
  • (گجرات اردو ساہتیہ اکادمی (اولڈ اسمبلی بلڈنگ، سیکٹر۔17، گاندھی نگر۔ 382017)
  • (ہریانہ اردو اکادمی (کوٹھی نمبر 516، سیکٹر۔12، پنچ کولہ۔134112)
  • (ہماچل اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگو یجز (شملہ، ہماچل پردیش)
  • جموں وکشمیر اکیڈمی آف آرٹس کلچر اینڈ لینگو یجز (لال منڈی، سری نگر۔ کنال روڈ، جمو)
  • کرنا ٹک اردو اکادمی (کنّٹر بھون، جے۔ سی۔ روڈ، بنگلور ۔ 560002)، ٹیلی فیکسن: 22213167-080)
  • (مدھیہ پردیش اردو کادمی (سنسکرتی بھون، بن گنگا روڈ، بھوپال۔462003)
  • (مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی (ڈی۔ڈی بلڈنگ، دوسری منزل، اولڈ کسٹم ہاؤس، شہید بھگت سنگھ روڈ، ممبئی۔ 400023)
  • (اڑیسہ اردو اکیڈمی (پرٹین بھون، میوزیم کمپلیکس، بھونیشور ۔751014)
  • (پنجاب اردو اکادمی (دہلی گیٹ، مالیر کوٹلہ، پنجاب 148023)
  • (راجستھان اردو اکادمی (جے3، سبھاش مارگ، سی۔ اسکیم، جے پور۔ 302001)
  • (تمل ناڈو اردو اکادمی (3، سینتھوم ہائی روڈ، چنئی۔ 600004)
  • اتر پردیش اردو اکادمی (وبھوتی کھنڈ، گومتی نگر، لکھنؤ)
  • (مغربی بنگال اردو اکادمی ( 2/75 ۔اے، رفیع احمد قدوئی مارگ، کولکاتہ۔700016)
  • لائبریریاں جن میں اردو کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے وہ علی گڑھ

مسلم یونیورسٹی ، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدر آباد؛ اور کشمیر یونیورسٹی، سری نگر میں ہیں۔ اس کے علاوہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری (بانکی پور، پٹنہ) اور رضا اور ینٹل لائبریری (قلعہ، رام پور) کو قومی اہمیت والی لابئریریوں کا درجہ دیا گیا ہے اور ان کی دیکھ بھال مرکزی حکومت کرتی ہے۔

کتابیات

  • بھاٹیا، تیجــــ اے ہسڑی آف دی ہندی گرامیٹکل ٹریڈیشن؛ لیڈن: برل، 1987
  • فاروقی، شمس الرحمنــــ ا رلی اردو لٹریری کلچر اینڈ ہسٹری، آکسفورڈ، 2001
  • کیلکر۔ اے۔آرــــ اسٹڈیز ان ہندی۔ اردو 1، پونا؛ دکن کالج ، 1968
  • کنگ، کرسٹوفرــــ ون لینگویج ، ٹواسکر پٹس؛ دہلی: او۔ یو۔ پی۔ 1994
  • رسل، رالف اور خورشید الاسلام، تھری مغل پوئٹس، آکسفورڈ
  • صادق، محمدــــ اے ہسٹری آف اردو لٹریچر؛ دہلی: او۔ یو۔ پی۔ 1964.
  • سمٹ، روتھ لیلیٰ۔ اردو: این ایسنشیل گرامر؛ لندن، راؤ ٹلیج، 1999.
  • زیدی، علی جاویدــــ اے ہسٹری آف اردو لٹریچر، نئی دہلی، ساہیتہ اکادمی